تُو اور ترا یہ نام یہاں خاک بھی نہیں
ناصر ، ترا مقام یہاں خاک بھی نہیں
جس کے حروف چوم کے روتی ہے شاعری
وہ قادر الکلام یہاں خاک بھی نہیں
اب کیا کریدتی ہے مرے دل کو روز و شب
ائے زندگی کی شام یہاں خاک بھی نہیں
اس نے بھی تجھ کو بیچ کے کیا پا لیا بھلا
یعنی کہ تیرے دام یہاں خاک بھی نہیں
کل تک تو پھر بھی خاک اڑاتی تھیں وحشتیں
اب ائے سبک خرام یہاں خاک بھی نہیں
اب جا ، نمو کو ڈھونڈ کوئی اور ہی زمیں
اب تو برائے نام یہاں خاک بھی نہیں
ہے لازمی تو آ، تری حجت تمام ہو
ائے عشقِ ناتمام یہاں خاک بھی نہیں