تھا قصائی بیل میرا ، تھا یہ انقلاب اُلٹا
جو میں رات سویا اُلٹا تو یہ دیکھا خواب اُلٹا
چھری رکھ کے بیل یک دم ہوا گائے سے یوں گویا
کیا ذبح میں نے شاعر ، یہ ملا عذاب اُلٹا
ہے دل اس کا پار پارہ تو جگر بھی اس کا چھلنی
میں کباب کیا بناؤں ، ہوا دل کباب اُلٹا
نہیں اس کے سر میں بھیجہ اسے کس نے تجھ کو بھیجا
تھا سوال گرچہ سیدھا پہ ملا جواب اُلٹا
کہا گائے نے یہ ہنس کر تُو مریضِ دل ہے مسٹر
کیا پیش یہ تجھے کہ نہ ہو تُو خراب اُلٹا
یہ ہے منحنی سا شاعر نہ کولیسٹرول اس میں
’’تو ہی ذبح کر کے کھا اور تو ہی لے ثواب اُلٹا‘‘