اردوئے معلیٰ

تیرے قصوں کو اساطیر کیا جا سکتا

ہو بہو تو کبھی تحریر کیا جا سکتا

 

پہلے لازم تھا کوئی خواب دکھانا ہم کو

تب کسی خواب کو تعبیر کیا جا سکتا

 

ہم کہ رکھ لیتے رہائش ہی گئے لمحوں میں

کاش لمحات کو تعمیر کیا جا سکتا

 

رنگ ہی دستِ تخیل کو میسر ہوتے

غم کی تجرید کو تصویر کیا جا سکتا

 

دل کی تعظیم کی تھی ایک ہی صورت کہ اگر

خاک کو باعثِ توقیر کیا جا سکتا

 

راہ جاتی کہ جہاں تک بھی نظر جا پاتی

ان خلاؤں کو بھی تسخیر کیا جا سکتا

 

عشق بے فیض دکھاتا کوئی کرتب تو

آہ کم بخت کو تاثیر کیا جا سکتا

 

پشت پر دید جمائے ہوئے یہ سوچتا ہوں

کاش کہ دید کو زنجیر کیا جا سکتا

 

ہم کو آتا کوئی تدبیر ہی کرنا ناصر

اور تدبیر کو تقدیر کیا جا سکتا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ