تیرے لفظوں میں کیا بلاغت ہے
تیری باتوں میں کیا فصاحت ہے
شہد گھلتا ہے آج بھی منہ میں
تیری یادوں میں کیا حلاوت ہے
فکر ، فہم و شعور روشن ہیں
تیرے قرآں میں کیا ہدایت ہے
دونوں عالم کا خوش نما منظر
حسنِ محبوب کی عنایت ہے
لفظ ومعنیٰ کی آبرو ساری
تیری گفتار کی بدولت ہے
تیرے رُخِ کی تجلّیاں واللّٰہ
ان پہ قربان ہر صباحت ہے
مصحفِ نُور دیکھنا پڑھنا
تیرے رخ کی حسیں تلاوت ہے
تیری سنّت پہ زندگی کرنا
میرے آقا یہی ریا ضت ہے
تیری ناموس پر فدا ہونا
جانِ عالم بڑی سعادت ہے
یہ جو صدق و صفا کا شہرہ ہے
تیرے صدیق کی صداقت ہے
یہ جو عظمت ہے عدل میں آقا
تیرے فاروق کی عدالت ہے
کاسہ بردار جس کے حاتم ہیں
تیرے عثمان کی سخاوت ہے
کفر لرزاں ہے جس کی ہیبت سے
تیرے حیدر کی وہ شجاعت ہے
رُخِ حیدر کو دیکھتے رہنا
تیرا فرمان ہے عبادت ہے
خود شہادت کو ناز ہے جس پر
تیرے شبّیر کی شہادت ہے
جنگ کو امن میں بدل دینا
تیرے شبّر ہی کی فراست ہے
وقفِ مدحت جو آج ہے نوری
یہ بھی سرکار کی عنایت ہے