ثنائے پاک لکھنے پر طبیعت میری جب آئی
بیک دم روح و تن میں آ گئی طرفہ توانائی
مرے اس خاکداں میں اس نے کی جب جلوہ فرمائی
زمیں و آسماں سے اک صدائے مژدہ باد آئی
شگوفے مسکرائے گل ہنسے بلبل بھی اترائی
وہ کیا آئے گلستاں میں بہارِ جاوداں آئی
اسی کے واسطے محفل وَ کارِ محفل آرائی
نبوت جس کی پائندہ مسلّم جس کی آقائی
اسی کے دم قدم سے مسندِ ارشاد پر پہنچی
وہ آدابِ تمدن سے معرّا قومِ صحرائی
حریمِ ناز سرکارِ دو عالم کا تقدس اف
فرشتے روز و شب اس در پہ مصروفِ جبیں سائی
شفیع المذنبیں ہے وہ شفاعت کام ہے اس کا
گنہ گاروں کو مژدہ باد، لو ان کی تو بن آئی
کروڑوں رحمتیں اپنی خدایا اس پہ نازل کر
کہ اس کے ہی سبب انساں کو جینے کی ادا آئی
نظرؔ بھی فیض یابِ جلوۂ دیدار ہو آقا
کہ تیرا خادمِ ناچیز ہے کب سے تمنائی