جبینِ شوق بلاوے کے انتظار میں ہے
مری حضوری ترے دستِ اختیار میں ہے
کروڑوں چاند ستارے ملا کے ہو نہ سکے
جو رنگ و نور مدینے کے ریگزار میں ہے
ہمارا جسم ہے ریگِ عجم سے آلودہ
ہماری رُوح مگر آپ کے دیار میں ہے
جسے تلاش ہے مدت سے تیری چوکھٹ کی
وہ ایک سجدہ مری چشمِ اشکبار میں ہے
چھٹے گی گرد کبھی تو مدینہ دیکھیں گے
مرا نصیب ابھی گرد میں، غبار میں ہے
یہی خیال تو اشفاقؔ رُوح پرور ہے
سیاہ کار سہی آپ کے شمار میں ہے