جب اپنے نامۂ اعمال پر مجھ کو ندامت ہو
بروزِ حشر ، حامی آپ کی شانِ شفاعت ہو
دلِ بے آرزو میں صرف اُن کی آرزو ٹھہرے
خیالِ غیر رُخصت ہو ، تمناؤں کو حیرت ہو
یہ دل روئے تو روئے گُنبدِ خضریٰ کی فرقت میں
محبت ہو تو اُس شہرِ محبت سے محبت ہو
کسی دن میں ، کسی شب میں مری قسمت سنور جائے
نظر جُھک جائے اور پیشِ نظر وہ جانِ رحمت ہو
غمِ دنیا سے مجھ کو اک تعلق نے بچایا ہے
بروزِ حشر بھی میری محافظ ایک نسبت ہو
کٹے یہ عمرِ فانی نعت گوئی ، نعت خوانی میں
دمِ رُخصت مرے ہونٹوں پہ آقا حرفِ مدحت ہو
حقیقت میں تمہارا نور مسجودِ ملائک ہے
بنی آدم اگر افضل ہے ، تُم وجہِ فضیلت ہو
تمہارا نعت گو اخترؔ ، بہت بے چین ہے آقا
پھر اک چشمِ کرم ہو اور سکونِ دل عنایت ہو