جب تلاطم میں کبھی اپنا سفینہ دیکھوں
بہرِ امداد سوئے شہرِ مدینہ دیکھوں
یا نبی خواب کو تعبیر کی صورت ہو عطا
جاگتی آنکھوں سے میں تیرا مدینہ دیکھوں
تیرا دامانِ کرم اتنا کشادہ ہو جائے
دامنِ حرف کو محدود کبھی نہ دیکھوں
جب اتر جائے خیالِ شہِ والا دل میں
متصل فکر سے میں عرش کا زینہ دیکھوں
گنگ کو محوِ تکلم یہاں پاؤں آقا
تیرے دربار میں نابینا کو بینا دیکھوں
کتنا اچھا ہے تیری یاد میں رونا مولا
ہجر کے داغوں سے مہکا ہوا سینہ دیکھوں
سامنے اس کے اگر ماہِ عرب آ جائے
چاند کے ماتھے پہ مظہرؔ میں پسینہ دیکھوں