جب حِرا کا پیامِ ہُدٰی نُور ہے
پھر سراسر وہ غارِ حِرا نُور ہے
وہ جہاں سے بھی گزریں وہیں روشنی
ہر قدم آپ کا مرحبا ! نُور ہے
نورِ عالم کا قعدہ رکوع و سجود
’’میرے آقا کی ہر اِک ادا نُور ہے‘‘
پل میں کایا پلٹ دے نظر آپ کی
چہرۂ والضّحٰی بانٹتا نُور ہے
نُورِ اوّل خُدا نے بنایا اُنہیں
ہیں وہ نُورِ ازل ، ابتدا نُور ہے
قدسیوں کا بھی ہے آنا جانا جہاں
ان کی چوکھٹ پہ صُبح و مَسا نُور ہے
ہے جہاں شاہِ کونین کا آستاں
اُس نگر کی تو ساری فضا نُور ہے
تیری ذاتِ عُلٰی شان تیری جدا
تیرا خُلقِ حَسَن بھی شہا ! نُور ہے
ہے جلیل اس کا عکسِ عیاں چاند میں
جس کو ذاتِ احد نے کہا نُور ہے