جب سے کچھ ہوش سنبھالا ہے جبھی سے ہم کو
ہے شغف شکرِ خدا نعتِ نبی سے ہم کو
ہیں نبی جتنے عقیدت ہے سبھی سے ہم کو
حبّ لیکن ہے اسی مطّلبی سے ہم کو
راہ پر لائے ہیں بے راہ روی سے ہم کو
کیسے الفت نہ ہو شاہِ مدنی سے ہم کو
آگہی بخشی ہے ذاتِ ازلی سے ہم کو
اور آگاہ کیا سرِّ خودی سے ہم کو
دیں پسندیدۂ حق مصحفِ قرآنِ حکیم
سب ملا ہے کرمِ مصطفوی سے ہم کو
جب سے واللہ ترے فقر کی شاہی دیکھی
بے نیازی سی ہے اک شانِ کئی سے ہم کو
حوضِ کوثر سے ترے حشر میں ساغر پائیں
ہے توقع یہ تری دریا دلی سے ہم کو
خلدِ ارضی سے چلیں خلدِ بریں میں پہنچیں
موت لے جایے جو طیبہ کی گلی سے ہم کو
ہم بیاں کر نہیں سکتے ہیں جو کرنا چاہیں
فیض پہنچا جو تری جلوہ گری سے ہم کو
ایک اللہ کی چوکھٹ پہ کیا سر بسجود
دی نجات اس نے نظرؔ در بدری سے ہم کو