جب یہ سوچا شہ دیں مجھ کو سنبھالے ہوئے ہیں
وادیِ فکر میں یک لخت اجالے ہوئے ہیں
پیرہن آتش عصیاں کو بنائے ہوئے ہم
مغفرت کے لیے وہ راہ نکالے ہوئے ہیں
اس لیے چہرے ہیں اولاد نبی کے روشن
اپنے شانوں پہ قبا نور کی ڈالے ہوئے ہیں
ان کو بوبکر و عمر کہیے کہ عثمان و علی
جتنے کردار ہیں سرکار کے ڈھالے ہوئے ہیں
غیر ہموار فضائیں بھی ہوئی ہیں ہموار
جب سے ہم سرور عالم کے حوالے ہوئے ہیں
کون بچ سکتا تھا موجوں کی غضب ناکی سے
وہ تو کہیے کہ وہ طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں
اے گل شاخ ازل اے گل مکی مدنی
ماہ و خورشید ترے چاہنے والے ہوئے ہیں
سیکڑوں سلطنتیں لے کے بھی واپس نہ کروں
ان کے دربار سے حاصل جو نوالے ہوئے ہیں
للہ الحمد ملی راہ مدینہ مجھ کو
خوش بہت آج مرے پاؤں کے چھالے ہوئے ہیں
یہ تو آقا کے تصور کا کرم ہے مجھ پر
بعد مدت کے جو وا ذہن کے تالے ہوئے ہیں
اس لیے پھول کے چہرے پہ ہے یاور رونق
مصطفیٰ رنگ تبسم کے اچھالے ہوئے ہیں