جسے مدّاحِ شاہِ دوسَرا لکھا گیا ہے
اُسے اہلِ سخن کا پیشوا لکھا گیا ہے
اُسے تاجِ شہی سے بڑھ کے ہے نقشِ عنایت
جسے شہرِ مدینہ کا گدا لکھا گیا ہے
ابھی اِک نعت چمکے گی بہ فیضِ حرفِ اقرا
مرے دل پر ابھی غارِ حرا لکھا گیا ہے
بِچھے تھے آسماں پر نُور کے امکان سارے
مگر نقشِ کفِ پا کو سوا لکھا گیا ہے
بس اس کے بعد تھے اعمال کے تدبیر خانے
سرِ نامہ ترا اسمِ عُلا لکھا گیا ہے
لکھا تھا ایک کاغذ پر مجھے تیرا ثنا گو
مجھے سچ میں مرے قد سے بڑا لکھا گیا ہے
سیہ مکتوب تھا جو میری فردِ ناروا میں
بہ فیضِ گنبدِ خضریٰ ہرا لکھا گیا ہے
رضائے قاسمِ کُل ہے عطائے معطئ کُل
اُنہی کو ہر دعا کا مدّعا لکھا گیا ہے
چلا ہُوں ساتھ لے کر مَیں ثنا کا حرفِ بخشش
کفن پر ویسے تو ’’اِک بے نوا‘‘ لکھا گیا ہے
مدینہ ہی تو ہے رحمت کا واحد استعارہ
یہی تو خاک ہے جس کو شفا لکھا گیا ہے
نہیں لکھا گیا مقصودؔ اُن کو اس سے آگے
خُدا کے بعد شانِ منتہا لکھا گیا ہے