اردوئے معلیٰ

جس خاک سے بنے تھے ہم اُس خاک پر گرے

شاخِ شجر سے ٹوٹ کے جیسے ثمر گرے

 

سونپی ہیں راہِ شوق نے وہ وہ امانتیں

کاندھوں سے رہ نورد کے زادِ سفر گرے

 

آیا ہے کس کا نام یہ نوکِ قلم پر آج

کاغذ پر آ کے سینکڑوں شمس و قمر گرے

 

خاشاک بن گئے ہیں ہواؤں کے ہاتھ میں

اپنی جڑوں سے ٹوٹ کے جتنے شجر گرے

 

گھر ٹوٹنے کا سانحہ عریاں سا کر گیا

جامے گرے بدن سے کہ دیوار و در گرے

 

پرچم نہیں ہے، ورثۂ اسلاف ہے ظہیرؔ

پرچم گرا تو جانیئے پُرکھوں کے سر گرے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات