جس دم بھی اُن کا نام میرے لب پہ آ گیا
مجھ کو ہر ایک غم سے بری کر دیا گیا
ہر نارسائی دور مرے بخت سے ہوئی
جب مصطفیٰ کا اسمِ گرامی لِیا گیا
جب سے ہوئی ہے مغفرِ صلِ علیٰ نصیب
ہر ایک وار میرے عدو کا خطا گیا
دس رحمتیں نصیب ہوئیں جب پڑھا درود
دامن سے سیّئات مری دس مٹا گیا
دستِ کرم سے اُن کے سہارا مِلا مجھے
پائے ثبات جب بھی مِرا لڑ کھڑا گیا
گھبرا گیا جو گردشِ لیل و نہار سے
بن کر سحاب اُن کا کرم سر پہ چھا گیا
ہر اک کو اس کے ظرف سے بڑھ کر عطا ہوا
چو کھٹ سے اُن کی خالی نہ کوئی گدا گیا
دیکھا ہے جب سے شہر شہِ شش جہات کو
نقشہ نظر میں خلدِ بریں کا سما گیا
ہو کیوں نہ افتخار مجھے اپنے بخت پر
مجھ کو ہے اُن کی نعت کی خاطر چنا گیا
کیسا سخن ‘ کہاں کا ہنر ‘ کیسی شاعری
ان کے کرم سے ان کا قصیدہ لکھا گیا
جبریل یہ بتا کہ سرِ بزمِ مدح شاہ
ازہرؔ کا کوئی شعر وہاں بھی سنا گیا