اردوئے معلیٰ

جس سمت دو جہاں میں رشکِ قمر گیا

اس سمت عاصیوں کا مقدر سنور گیا

 

رمضان پاک ہم کو ملا آپ کے طفیل

جھولی گناہ گاروں کی رحمت سے بھر گیا

 

روشن زمانہ ہو گیا نورِ مبین سے

وہ پیکر جمال جدھر سے گزر گیا

 

عشقِ حبیب تو تھا بلالِؓ کمال کا

تھا بے مثال عشق بھی ایسا ہی کر گیا

 

عقل و شعور کر نہ سکار عمر بھر جو کام

میرا جنون و شوق وہ لمحوں میں کر گیا

 

دستِ طلب بڑھانے کا سوچا جو وارثیؔ

دستِ عطا اٹھا مری جھولی کو بھر گیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ