جلائے رکھتی ہوں دل میں تری ثنا کے چراغ
جگا رہے ہیں تخیل ، تری وِلا کے چراغ
ترے ہی نُور سے روشن ہوئے ہیں دونوں جہاں
ہیں مہر و ماہ، ستارے تری ضیا کے چراغ
اندھیری شب کا تصور نہیں حیات میں اب
’’حریمِ جاں میں ہیں روشن تری عطا کے چراغ‘‘
خوشا نصیب کہ شہرِ کرم میں آئی ہوں
جلے ہیں اُن کی رضا سے مری دعا کے چراغ
ملی ہے عشقِ محمد سے روشنی جن کو
وہی تو رکھے ہیں میں نے بچا بچا کے چراغ
خدا تو مالکِ کُل ہے حُضور قاسم ہیں
انہی کے پاس خزانے ہیں اور سخا کے چراغ
وفا کی روشنی بڑھ کر ہے ان اجالوں سے
یہی بتایا تھا ، شبیر نے بجھا کے چراغ
اے نازؔ کاش تُو ہوتی کنیز زہرہ کی
تو اُن کے حجرے میں رکھتی جلا جلا کے چراغ