جلوۂ ماہ ِ نو ؟ نہیں ؟ سبزہ و گل ؟ نہیں نہیں
عالم ِ رنگ و نور میں تجھ سا کوئی حسیں نہیں
شہر تو خیر شہر تھا ، دشت میں بھی نہ جی لگا
دربدری! مجھے بتا ، کیا مرا گھر کہیں نہیں ؟
جس سے نہ پڑ سکیں نشاں عشق کی سجدہ گاہ میں
ایسا جنوں جنوں نہیں ! ایسی جبیں جبیں نہیں
رکھتے ہیں مجھ کو روزو شب مست کسی کے سرخ لب
میرے خمار کا سبب بادۂ احمریں نہیں
جس نے قبول کر لیا ، نور سے خود کو بھر لیا
سورہ حُسن کی قسم ، عشق سا کوئی دیں نہیں