جلوۂ ذات لیے آئی ہے معراج کی رات
رشکِ صد منظرِ سینائی ہے معراج کی رات
آب زمزم سے کہاں غسلِ دلِ جانِ طہور ؟
خود وہ برکت کا تمنائی ہے معراج کی رات
ماجرا طور کا بھی ” عبد ” کی ہے شان ، مگر
عبدہٗ کی شرف آرائی ہے معراج کی رات
بوجھ اعدا کے مطاعن کا زمیں بوس ہوا
یوں دلِ شہ کی پذیرائی ہے معراج کی رات
رفرف و برق کے محتاج نہیں نورِ خدا
یہ تو بس مرتبہ افزائی ہے معراج کی رات
مطلعِ وصل پہ چمکا ہے مناجات کا چاند
’’ مٹ گئی تیرہ شبی چھائی ہے معراج کی رات ‘‘
آج جلنے کے نہیں چاند ستاروں کے چراغ
جوش پر طلعتِ آقائی ہے معراج کی رات
بخشش عام بہ داماں ، کرم خاص بکف
ناز انداز عجب لائی ہے معراج کی رات
دست بستہ ہیں ملک بہرِ صلاۃ و تسلیم
صفِ غلمان بھی مجرائی ہے معراج کی رات
اے معظم ! نہ بِلک ! آج ملے گا سب کچھ
جوش پر رحمتِ مولائی ہے معراج کی رات