جن کی مدح و ثنا ہے کام مِرا
خود ہی کر لیں گے انتظام مِرا
بات لب ہائے مصطفیٰ کی ہے
’’ کیوں نہ رنگین ہو کلام مِرا ‘‘
خلد کی مئے سے روک مت رضوان !
جب ہے ساقی مرا تو جام مرا
حشر میں تن پہ ہے قبائے ثنا
دیدنی آج ہے خرام مرا
زندگی پھر شروع ہو ، گر ہو
ان کے قدموں میں اختتام مرا
نام جن کا میں جپتا رہتا ہوں
وہ بھی لیں گے کبھی تو نام مِرا
نعت گو ہوں ، مجھے ہے یہ امید
میرے ہاتھ آئے گا مقام مرا
ان کو کیا حاجتِ سلام جنہیں
رب کہے آپ کو سلام مِرا
ہوں معظمؔ سگِ درِ احمد
کیوں نہ پھر شیر ہو غلام مِرا