جن کے سینے میں ہے اکرام علی اکبر کا
ذکر کرتے ہیں وہ ہر شام علی اکبر کا
ان کو بخشی ہے شہادت نے حیاتِ ابدی
رونقِ خلد ہے انعام علی اکبر کا
کربلا جائیں گے سادات کی خوشبو لینے
جن میں ضو بار ہے اک نام علی اکبر کا
روشنی کیا ہے یہ اندازہ بھی ہو جائے گا
دامنِ نور ذرا تھام علی اکبر کا
نقدِ جاں پیش کیا دینِ محمد کے لئے
قابلِ رشک ہے یہ کام علی اکبر کا
دل کو سرشار کئے دیتا ہے الفت کا وفور
نام جب لیتا ہوں گلفام علی اکبر کا
میرے ہمراہ چلے سرخ گلابوں کا ہجوم
ساتھ مل جائے جو دو گام علی اکبر کا