جونہی سرِّ رفعنا نطق کو تعلیم ہوتا ہے
مری ہر فکر کا مرکز وہ نوری میم ہوتا ہے
نگاہیں خم کیے بیٹھوں درِ آقا پہ دو زانوں
کہ اس دربار سے رزقِ ثنا تقسیم ہوتا ہے
ادائے صیغۂ کن سے ہزاروں سال پہلے ہی
وجودِ حضرتِ خیر الورٰی تجسیم ہوتا ہے
حجر ان کی گواہی دیں، شجر جھک کر سلامی دیں
بہ یک جنبش چمکتا چاند بھی دو نیم ہوتا ہے
سند ہے یہ، خدا سے وہ جدا ہرگز نہیں لوگو
کہ ذکرِ مصطفٰی ہی بعدِ ہر تحریم ہوتا ہے
سبب اِس کا بنے گی نعت گوئی مدح سامانی
جو روزِ حشر یہ بندہ وہاں تسلیم ہوتا ہے
عجب ہی اوج پر ہوتا ہے یہ زورِ سخن منظر
قلم سے حرفِ مدحت جب مرے ترقیم ہوتا ہے