جو بھی کرتے ہیں درِ خیرالبشر کا احترام
دل میں رکھتے ہیں بہت طیبہ نگر کا احترام
حمدِ رب، نعتِ نبی ہر دم رہے وردِ زباں
یوں ہو مکّے اور مدینے کے سفر کا احترام
دست بستہ چشمِ نم سے حاضری دے آئے ہیں
اس طرح ہم نے کیا آقا کے گھر کا احترام
جو مدینہ دیکھ آئے اُن کی آنکھیں چوم لیں
یوں کیا ہم نے بھی اُن اہلِ بَصَر کا احترام
مصطفیٰ جس راہ سے گزرے معطّر کردیا
خوشبوئیں کیوں نہ کریں اُس رہ گزر کا احترام
نعت گوئی کی سعادت سے قلم لبریز ہے
مجھ کو حاصل ہو گیا ہے عمر بھر کا احترام
لعل و گوہر ہیں ہمیں طیبہ کے سنگ و خشت سب
کرنے والے کر رہے ہیں سیم و زر کا احترام
اُن کے کوچے کا ادب ہے لازمی کرتے رہو
گنبد و مینار کا اور بام و در کا احترام
میں وہ خاکیؔ ہوں جسے نعتوں نے نوری کر دیا
ایسے کرواتے ہیں آقا بے ہنر کا احترام