جو تری چشمِ التفات میں ہے
وہ حصارِ نوازشات میں ہے
میں ہوں محوِ ثنائے شاہِ زمن
فکر باغِ تجلیات میں ہے
اور کچھ سوجھتا نہیں مجھ کو
نعت ہی نعت کائنات میں ہے
میرے سرکار کی پناہ میں آئے
جو گھرا سیلِ حادثات میں ہے
چھڑ گیا تذکرہ تبسم کا
نور بزمِ تصورات میں ہے
شاہِ بطحا کی مہربانی سے
میری کشتی حدِ نجات میں ہے
نام ان کا ہے سازِ دل پہ رواں
ذکر ان کا ہی بات بات میں ہے
باغِ ایماں کی آبرو ٹھہری
حْبِ سرکار واجبات میں ہے
والیٔ دوجہاں کا ہے صدقہ
رنگ جو بزمِ ممکنات میں ہے
المدد اے خدائے شاہِ امم
سنگ دشنام میری گھات میں ہے
ہو بسر ان کی پیروی میں صدف
حسن و خوبی یہی حیات میں ہے