اردوئے معلیٰ

جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌ گریزاں کو

ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو

 

کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی

کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک رُوئے خنداں کو

 

کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا

کبھی ہم بھی جنوں کا حق سمجھتے تھے گریباں کو

 

کہیں ایسا نہ ہو شیرازہِ ہستی بکھر جائے

نہ دیکھو اس توجہ سے کسی آشفتہ ساماں کو

 

کسی کا دوست ہے کوئی نہ کوئی دشمنِ جاں ہے

حزیں اپنے ہی سائے ڈس گئے کمبخت انساں کو

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ