جو دل تمہارے زیرِ اثر تھے ، نہیں رہے
امکان واپسی کے ، اگر تھے ، نہیں رہے
کیا خاک بچ گیا ہے اگر خاک بچ گئی
یعنی جو لوگ خاک بسر تھے ، نہیں رہے
ہم جذب ہو گئے سو رہے سجدہ گاہ میں
سجدے میں اور جتنے بھی سر تھے ، نہیں رہے
یوں تو رہا ہجوم چراغوں کے آس پاس
جو واقعی میں سوختہ سر تھے ، نہیں رہے
اب کیا سخنوری کی تکالیف جھیلئے
دو چار ہی تو اہلِ نظر تھے ، نہیں رہے
مشاطگی میں محو رہی منزلِ بقاء
اور اس طرف جو محو سفر تھے ، نہیں رہے
ہم صرف اپنے آپ کی تصویر رہ گئے
جتنے کمال ، جتنے ہنر تھے ، نہیں رہے
جو پینگ جھولتی تھی بھلا اس کا زکر کیا
آنگن میں نیم کے جو شجر تھے ، نہیں رہے
چھوٹے سے ایک کھیت میں سرسوں کے پھول تھے
اور اس سے متصل کوئی گھر تھے ، نہیں رہے
آوارہ گردِ عشق کو جا کر پیام دو
پچھلی دفعہ جو شہر ادھر تھے ، نہیں رہے
ناصر ہم اس کے بعد مناظر سے ہٹ گئے
پیشِ نظر فریبِ نظر تھے ، نہیں رہے