اردوئے معلیٰ

جو دل تمہارے زیرِ اثر تھے ، نہیں رہے

امکان واپسی کے ، اگر تھے ، نہیں رہے

 

کیا خاک بچ گیا ہے اگر خاک بچ گئی

یعنی جو لوگ خاک بسر تھے ، نہیں رہے

 

ہم جذب ہو گئے سو رہے سجدہ گاہ میں

سجدے میں اور جتنے بھی سر تھے ، نہیں رہے

 

یوں تو رہا ہجوم چراغوں کے آس پاس

جو واقعی میں سوختہ سر تھے ، نہیں رہے

 

اب کیا سخنوری کی تکالیف جھیلئے

دو چار ہی تو اہلِ نظر تھے ، نہیں رہے

 

مشاطگی میں محو رہی منزلِ بقاء

اور اس طرف جو محو سفر تھے ، نہیں رہے

 

ہم صرف اپنے آپ کی تصویر رہ گئے

جتنے کمال ، جتنے ہنر تھے ، نہیں رہے

 

جو پینگ جھولتی تھی بھلا اس کا زکر کیا

آنگن میں نیم کے جو شجر تھے ، نہیں رہے

 

چھوٹے سے ایک کھیت میں سرسوں کے پھول تھے

اور اس سے متصل کوئی گھر تھے ، نہیں رہے

 

آوارہ گردِ عشق کو جا کر پیام دو

پچھلی دفعہ جو شہر ادھر تھے ، نہیں رہے

 

ناصر ہم اس کے بعد مناظر سے ہٹ گئے

پیشِ نظر فریبِ نظر تھے ، نہیں رہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات