جو دل دھڑک رہے تھے وہ دف بھی نہ ہو سکے
اس بار معرکے میں ہدف بھی نہ ہو سکے
پھر ڈھونڈنا پڑا ہے اسی چیرہ دست کو
یہ خواب اپنے آپ تلف بھی نہ ہو سکے
موتی تو ہو چکا تھا دل و جان سے کوئی
لیکن یہ ہاتھ ہیں کہ صدف بھی نہ ہو سکے
اس صف شکن جنونِ بلا خیز کے لیے
اپنے قلیل خواب تو صف بھی نہ ہو سکے
جب رن پڑا تو پھر کوئی تفریق تھی کہاں
وہ کٹ مرے جو تیغ بکف بھی نہ ہو سکے
ناصر کتابِ عمر کی بوسیدگی نہ پوچھ
اتنی ہے فرد فرد کہ لف بھی نہ ہو سکے