اردوئے معلیٰ

جو عشقِ نبی کے جلوؤں کو سینوں میں بسایا کرتے ہیں

اللہ کی رحمت کے بادل ان لوگوں پہ سایا کرتے ہیں

 

جب اپنے غلاموں کی آقا تقدیر بنایا کرتے ہیں

جنت کی سند دینے کے لیے روضے پہ بُلایا کرتے ہیں

 

مخلوق کی بگڑی بنتی ہے خالق کو بھی پیار آجاتا ہے

جب بہرِ دعا محبوبِ خدا ہاتھوں کو اُٹھایا کرتے ہیں

 

گردابِ بلا میں پھنس کے کوئی طیبہ کی طرف جب تکتا ہے

سلطانِ مدینہ خود آکر کشتی کو ترایا کرتے ہیں

 

اے دولتِ عرفاں کے منگتو اس در پہ چلو جس در پہ سدا

دن رات خزانے رحمت کے سرکار لُٹایا کرتے ہیں

 

وہ نزع کی سختی ہو اے دل یا قبر کی مشکل ہو منزل

وہ اپنے غلاموں کی اکثر امداد کو آیا کرتے ہیں

 

ہے شغل ہمارا شام و سحر ہے ناز سکندرؔ قسمت پر

محفل میں رسولِ اکرم کی ہم نعت سنایا کرتے ہیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ