جو عکس جیسا، جہاں رکھ دیا، نہیں بدلا
کہ خواب میں بھی کبھی آئنہ نہیں بدلا
تمام عمر محبت کا شہد کھاتے رہے
سو تلخیوںنے کبھی ذائقہ نہیں بدلا
خرد نے میرے جنوں پر ہزارفتوے دیے
مری یہ سوچ ، مرا فلسفہ نہیں بدلا
وفا کی راہ گزرتی ہے ہوکے مقتل سے
میں جانتا تھا مگرراستہ نہیں بدلا
لکھا ہوا تھا لکیروں میں فاصلہ قیصرؔ
سو ہم نے عشق کیا ، فیصلہ نہیں بدلا