جو مانگنا ہے مانگ لے ہر بار ملے گا
لا، کہتے نہیں مالک و مختار ملے گا
گر اذنِ مدینہ کی ہے خواہش تو دعا کر
سچی ہے طلب گر، تو مرے یار ملے گا
ترسیدہ نگاہی مری کب دور کریں گے
کب دیکھنے کو گنبد و مینار ملے گا؟
ہم ہجر کے ماروں کی ہے بس ایک نشانی
دل دیدِ رخِ شہ کا طلب گار ملے گا
اس در پہ کوئی فرق نہیں شاہ و گدا میں
ہر فرد فقیرِ درِ سرکار ملے گا
اب چھوڑ کے سب کارِ دگر طیبہ نگر چل
یہ عشق کا رستہ تجھے ضوبار ملے گا
دیوانہ وہاں بر سرِ میزانِ عمل بھی
کرتا ہوا مدحِ رخِ سرکار ملے گا
ہو گا پُلِ جانکہ پہ جسے اُن کا سہارا
اک پَل میں وہ اِس پار سے اُس پار ملے گا
آنکھوں سے لگائے گا کبھی رکھے گا سر پر
منظر کو اگر نعلِ کرم بار ملے گا