اردوئے معلیٰ

جو یادِ نبی میں نکلتے ہیں آنسو

گراں موتیوں میں وہ ڈھلتے ہیں آنسو

 

اُمڈتا ہے آنکھوں میں گویا سمندر

جو دھیرے سے پلکوں پہ چلتے ہیں آنسو

 

جونہی یاد آتی ہیں طیبہ کی گلیاں

نہیں پھر سنبھالے سنبھلتے ہیں آنسو

 

تصور میں لاتا ہوں جب بھی مدینہ

تو بے ساختہ یہ ابلتے ہیں آنسو

 

گریں گے یہ ارضِ مدینہ پہ جا کر

مری چشمِ تر میں جو پلتے ہیں آنسو

 

خوشا! ان کا روضہ مرے سامنے ہے

نکلنے کو اب یہ مچلتے ہیں آنسو

 

اثاثہ یہی ہیں جلیلِ حزیں کا

جو نکلیں تو قسمت بدلتے ہیں آنسو

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ