جھاڑ دے خاک قدم گر تری ناقہ آقا
سارے بیماروں کو ہو جائے افاقہ آقا
سب اسیروں نے ترے در سے رہائی پائی
ساری دنیا کا تو مولائے عِتاقہ آقا
مُلک ارضین و سماوات کا کہنا کیا ہے
لامکاں جب ہےترا جزوِ علاقہ آقا
ترے دم سے دمِ انساں ہے بہ حصرِ تحفیظ
ورنہ کچھ عیب نہ تھا خوں کا اِراقہ آقا
چاہے تو کوہِ زَری ساتھ چلیں ، پاس مگر
کچھ بھی رکھتا نہیں زر بخشِ سراقہ آقا
عقدہ کھولا ہے یہ تفہیمِ ” اَنا قاسم ” نے
اختیاری تھا سراسر ترا فاقہ آقا
فخر تجھ کو نہیں ” لا فخر ” کے فرماں والے
فخر تو ان کو ہو جن کا ہے تو آقا آقا
کیوں نہ کہلائے معظم ترا ناکارہ غلام
جب تری نعت کی ہے سر پہ اُتاقہ آقا