نعت رسول مقبول
جھلستی دوپہر میں تو نے انسان کو بچایا ہے
تو پھر اس میں غلط کیا ہے کہ تو رحمت کا سایہ ہے
دلوں کو جوڑ کر تو نے محبت کی طرح ڈالی
مٹا کر غیریت کو پیار کا جادو جگایا ہے
ترے نقشِ کفِ پا نے سرِ صحرائے بے پایاں
جو رستہ بھول بیٹھے تھےانہیں رستہ دکھایا ہے
جہاں ڈوبا ہوا تھا خامشی کے اک سمندر میں
تری آواز کی ہر موج نے طوفاں اٹھایا ہے
تری ضو سے چمک اٹھی جبینِ آدمِ خاکی
تو وہ خورشید ہے جو تیرگی میں مسکرایا ہے
سکھایا ہے تجھی نے زندگی کا ڈھنگ عالم کو
چراغِ رہگذر ایسا یہاں کس نے جگایا ہے
غزلؔ میں اس کی شانِ دلبری تجھ کو بتاؤں کیا
زمانے میں تھے ہم کافر ہمیں مومن بنایا ہے