جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
جبین عقیدت کو خم دیکھتے ہیں
میں لیتا ہوں نام ان کا گر میکدے میں
مجھے کس نظر سے صنم دیکھتے ہیں
یہ گلکاریاں کب ہیں آساں قلم کی
قلم کا ہوا سر قلم دیکھتے ہیں
تری اک نگاہِ کرم ہو تو پھر ہم
قیامت کے فتنہ کو کم دیکھتے ہیں
جنھیں تو نے دل کا غنی کر دیا ہے
وہ کب سوئے دارا و جم دیکھتے ہیں
بگولے کہ صورت خراماں ملا ہے
ترے نذر کو جب بھی ہم دیکھتے ہیں