جہاں دل میں رنج و الم دیکھتے ہیں
وہیں اُن کا لُطف و کرم دیکھتے ہیں
غلاموں کی کرتے هیں وہ اشک شوئی
کسی کی جو آنکھیں وہ نم دیکھتے ہیں
اُنہی کی تو یادوں کی سرشاریاں ہیں
کہ بے کار سب جام و جم دیکھتے ہیں
دہن ، جس سے نکلے سدا اُن کی مدحت
وہ ایسی زباں اور فَم دیکھتے ہیں
جسے چاہیں دے دیں وہ اِذنِ حضوری
کہ ذات اور رنگت وہ کم دیکھتے ہیں
نہیں کوئی اُن کی نگاہوں سے اوجھل
ہر اک امًتی کو بہم دیکھتے ہیں
وہ کرتے ہیں سب کے غموں کا مداوا
جسے بھی وہ مشقِ ستم دیکھتے ہیں
تصور میں اُن کے مدینے کا منظر
یہاں بیٹھ کر دم بدم دیکھتے ہیں
نگاہوں سے دیتے ہیں جی بھر کے بوسے
کہ جب تیرا پیارا حرم دیکھتے ہیں
کہاں اُن کا روضہ ، کہاں اپنی آنکھیں
هہے اُن کی عنایت کہ ہم دیکھتے ہیں
درِ مُصطفیٰ هہی وہ در ہے جہاں پر
جبینِ شہاں لوگ خم دیکھتے ہیں
جنھیں رب نے بخشی هہے رفعت دنیٰ کی
اُنہی کا تو اونچا عَلَم دیکھتے ہیں
مہ و مہر و انجم کی ضَو پاشیوں میں
جلیل ، اُن کا مکھڑا اتَم دیکھتے ہیں