جیسے مہک اڑے کبھی گل سے صبا کے ساتھ
مجھ سے بچھڑ گیا وہ مگر کس ادا کے ساتھ
شعلہ تو ایک پل نہ تہہ آب رہ سکے
میں ہوں کہ عمر کاٹ دی اس بے وفا کے ساتھ
یوں ہاتھ سے گیا وہ کبھی پھر نہیں ملا
اک عمر بھاگتا رہا گو میں ہوا کے ساتھ
جو آنکھ دی تو دیکھنا بھی فرض کر دیا
انسان زندہ ہے مگر پوری سزا کے ساتھ
جو کچھ کہوں میں سننا بھی پڑتا ہے وہ مجھے
گنبد میں جیسے بند ہوں اپنی صدا کے ساتھ
احسن وہ آنکھ ہے تو میں ہوں اس کی روشنی
رشتہ تو دور کا نہیں میرا خدا کے ساتھ