’’حرم سے قافلہ نکلا ہے کربلا کی طرف‘‘
خدائے پاک کی خوشنودی و رضا کی طرف
رہی ہے عقل کو حاجت ہمیشہ راحت کی
دکھائی دے گا سدا عشق ابتلا کی طرف
بھنور میں آن گِھری ہے یہ ناؤ امّت کی
لگا کے آس کھڑی ہے یہ ناخدا کی طرف
اِدھر نفوس بہتّر اُدھر بڑا لشکر
وفا تھی خون میں شامل گئے وفا کی طرف
سخی وہ ہیں کہ سوالی جو دے صدا در پر
تو ایک پل میں لپکتے ہیں وہ سخا کی طرف
کلابِ دنیا تو سارے ہی تھے یزید کے ساتھ
مگر تھے اہلِ وفا آلِ مصطفیٰ کی طرف
ملی ہے خاکِ مدینہ اسے دوا کی طرح
جو بڑھ رہا ہے مریضِ کہن شفا کی طرف
جلیل دیدنی منظر تھا صحنِ زہرا میں
گئے تھے آلِ نبی جس گھڑی کسا کی طرف