حروفِ عجز میں لپٹے ہوئے سلام میں آ
اے میری خواہشِ باطن مرے کلام میں آ
اُداسی دل کے دریچوں سے جھانکتی ہے تجھے
بس ایک لمحے کو تو حیطۂ خرام میں آ
تو میرے قریۂ جاں میں اُتار صبحِ نوید
تو میرے عجز گھروندے کی ڈھلتی شام میں آ
ہزار عرض و جتن کی ہے ایک ہی تدبیر
تو آ، زمانوں کے والی، مرے خیام میں آ
نہیں مجال، پہ حالت بہت ہے آزردہ
اے حسنِ تام، مرے شوقِ نا تمام میں آ
مَیں کعبہ دیکھنے لگتا ہوں تیری دید کے ساتھ
مدینے والے تو پھِر مسجدِ حرام میں آ
ترے حضور یہ عرضی گزار ہے مقصودؔ
وہ تیرا خاص نہیں ہے، تو اپنے عام میں آ