حرکت میں قلم اُن کی عطاؤں کے سبب ہے
اور غوطہ زنِ عطر ثناؤں کے سبب ہے
ہر بار فنا ہونے سے بچ جاتی ہے دنیا
یہ شہرِ مدینہ کی ہواؤں کے سبب ہے
ہر ایک تعلق کو ضرورت ہے وفا کی
عباس ! یہ سب تیری وفاؤں کے سبب ہے
محسوس نہ ہو گی جو ہمیں گرمئِ محشر
زلفِ شہِ ابرار کی چھاؤں کے سبب ہے
ہے پستئِ امت کا سبب آپ سے دوری
نہ غیر کے حملوں نہ وباؤں کے سبب ہے
ہے قابلِ دیدار جو فردوسِ بریں بھی
یہ صرف محمد کی اداؤں کے سبب ہے
نام آپ کا ہے جس کے مکینوں کا وظیفہ
برساتِ کرم یہ اُسی گاؤں کے سبب ہے
رکھتے ہو جو سر ماتھے پہ اولادِ نبی کو
یہ نیک سرشت آپ کی ماؤں کے سبب ہے
صد شکر کہ مٹتا نہیں شوقِ رخِ زیبا
واللّٰہْ یہ مرشد کی دعاؤں کے سبب ہے
کیا ہو گا ترے حسنِ تبسم کا نتیجہ
جب رونقِ دنیا ترے پاؤں کے سبب ہے