حسن و خوبی کا نمونہ ہے وہ حق بیں، دلجو
پاک دل، پاک نظر، نرم زباں، آئینہ رو
زلفِ شب رنگ میں اس کی جو رچی ہے خوشبو
ایسی عنبر میں کہاں ہے نہ بہ مشکِ آہو
لبِ لعلینِ شہِ طیبہ ہیں مثلِ یاقوت
مثلِ ناوک ہے مژہ تیغِ دو دم ہیں ابرو
‘حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری’
جامعِ وصف و کمالات ہے ایسا بس تو
عرشِ اعظم پہ لہکتا ہے لوائے عظمت
اس کی ٹکر کا نہیں کوئی بھی دیکھیں ہر سو
مائلِ بخشش و الطاف و کرم ہے ہر دم
جوشِ رحمت سے دلِ شاہِ امم ہے مملو
سرنگوں کر کے کوئی بات کرے تو کر لے
گفتگو کوئی کرے، تاب کہاں رو در رو
قابلِ دید ہوئی تب کہیں جا کر دنیا
اس نے جب شانۂ حکمت سے سنوارے گیسو
گرمی حشر سے کیا خوف اسے اے ہمدم
مئے کوثر جسے مل جائے وہاں دو چُلّو
ہم نشیں خاص جو منظورِ نظرؔ تھے اس کے
بعد مردن بھی خوشا بخت رہے ہم پہلو