حسّان کے جلو میں عقیدت کی دھُوم ہے
باغِ جناں میں محفلِ مدحت کی دھوم ہے
ہونٹوں نے اسمِ کیف پُکارا تھا ایک بار
پیہم دلِ نیاز پہ لذت کی دھُوم ہے
دُنیا میں بھی ہیں آپ کی عظمت کے تذکرے
محشر میں بھی حضور کی قامت کی دھُوم ہے
ناقہ سوار نُور کی مدحِ طلوعِ بدر
لاریب تا ابد اُسی طلعت کی دھُوم ہے
کیا تھی شبِ عروج کی وہ ساعتِ رفیع
اب تک فصیلِ فہم پہ حیرت کی دھُوم ہے
لازم ہے خوابِ شوق میں مہکی ہے شامِ گُل
جو میرے آس پاس یہ نکہت کی دھُوم ہے
چُھپ چُھپ کے پھِر رہا تھا سرِ حشر، اور اب
وہ سامنے ہیں اور شفاعت کی دھُوم ہے
بچ جائے گی اِسے تُو عنایت پہ چھوڑ دے
زاہد جو تیرے پاس عبادت کی دھُوم ہے
محسوس کر رہا ہُوں مَیں صدیوں کے ربط سے
غارِ حِرا میں اب بھی تلاوت کی دھُوم ہے
ہم سے تو خیر ہیں ہی سپردِ عطائے ناز
شاہوں میں آپ کے درِ دولت کی دھُوم ہے
گھُٹّی میں ڈال دیتے ہیں ہم مصرعِ نیاز
مقصودؔ میری نسلوں میں مدحت کی دھُوم ہے