حصارِ دہر ہے ذکر خدا سنبھالے ہوئے
کبھی سنبھلتا نہیں زلزلہ سنبھالے ہوئے
کسی ستون پہ ٹھہراؤ آسماں کا نہیں
مرے خدا کی ہے ابتک رضا سنبھالے ہوئے
وہ لفظ کُن سے جو چاہے وہ خلق فرمائے
رسول پاک ہیں اُس کی عطا سنبھالے ہوئے
یہ چاند تارے نظام فلک زمین و زماں
خدا کے بعد ہیں صل علیٰ سنبھالے ہوئے
رسول پاک گئے عرش پر شب معراج
ندائے حق تھی مکمل فضا سنبھالے ہوئے
خیال محو زیارت تھے جسم گھر میں رہا
اڑا کے لے گئی مجھ کو صبا سنبھالے ہوئے
عمل کی راہ سے انجم بھٹک نہیں سکتا
ہیں ہر قدم پہ شہہِ انبیاء سنبھالے ہوئے