حق بات کرنے والے سرِ دار آ گئے
راہِ خدا میں صاحبِ ایثار آ گئے
جو خوش تھے زیرِ سایۂ دیوار آ گئے
بیزار ہم تھے ، زیست سے بیزار آ گئے
اس آس میں کہ آئے گا رحمت کو اُس کی جوش
ظلمت میں روشنی کے طلبگار آ گئے
بازارِ سیم و زر ہے کہ بازارِ حسن ہے
پل بھر میں دیکھو کتنے خریدار آ گئے
یہ نفرتوں کی آندھی اُکھاڑے گی شہر کو
ہر موڑ پہ چھپے ہوئے عیّار آ گئے
نکلا زباں سے لفظ جو موتی سے کم نہ تھا
سچ جُرم ہے تو مرنے کو تیار آ گئے
دستک ہی دیں کہ کھولنے کوئی تو آئے گا
مدت سے ہم قریبِ درِ یار آ گئے
ساحرؔ وہ ہوں گے بزمِ سخن میں غزل سرا
لو شام سے ہی تشنۂ دیدار آ گئے