اردوئے معلیٰ

حق بات کرنے والے سرِ دار آ گئے

راہِ خدا میں صاحبِ ایثار آ گئے

 

جو خوش تھے زیرِ سایۂ دیوار آ گئے

بیزار ہم تھے ، زیست سے بیزار آ گئے

 

اس آس میں کہ آئے گا رحمت کو اُس کی جوش

ظلمت میں روشنی کے طلبگار آ گئے

 

بازارِ سیم و زر ہے کہ بازارِ حسن ہے

پل بھر میں دیکھو کتنے خریدار آ گئے

 

یہ نفرتوں کی آندھی اُکھاڑے گی شہر کو

ہر موڑ پہ چھپے ہوئے عیّار آ گئے

 

نکلا زباں سے لفظ جو موتی سے کم نہ تھا

سچ جُرم ہے تو مرنے کو تیار آ گئے

 

دستک ہی دیں کہ کھولنے کوئی تو آئے گا

مدت سے ہم قریبِ درِ یار آ گئے

 

ساحرؔ وہ ہوں گے بزمِ سخن میں غزل سرا

لو شام سے ہی تشنۂ دیدار آ گئے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات