اردوئے معلیٰ

حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہوں گے

سحر سے بر سرِ پیکار ہم نہیں ہوں گے

 

یہ خوابِ غفلت بیخود ہمیں گوارا ہے

فروغِ جبر میں بیدار ہم نہیں ہوں گے

 

ہمیں عزیز ہے حرمت جہادِ منزل کی

شریکِ کاوشِ بیزار ہم نہیں ہوں گے

 

کسی حریفِ ستمگر کی پیشوائی میں

شریکِ مجمع اغیار ہم نہیں ہوں گے

 

سجاؤ سر پہ کسی کے بھی تاجِ سلطانی

نقیبِ شوکتِ دربار ہم نہیں ہوں گے

 

جہاں میں عظمتِ کردار کے ہیں قائل ہم

قتیلِ گرمیء گفتار ہم نہیں ہوں گے

 

بکی ہے گرچہ حمایت ہماری ہر عنوان

رہینِ جبۂ و دستار ہم نہیں ہوں گے

 

اگر نہ بن سکے مظلوم کی سِپر نہ سہی

ستم کے ہاتھ میں تلوار ہم نہیں ہوں گے

 

اگر ہے قیمتِ گویائی درد کی تشہیر

تو پھر سے تشنۂ اظہار ہم نہیں ہوں گے

 

جمالِ خرقۂ درویشی ہے نظر میں ظہیرؔ

اسیر طرّۂ خمدار ہم نہیں ہوں گے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ