خامہ مرا دیتا ہے بصد عجز گواہی
اوصاف و محامد ہیں ترے لامُتناہی
دُنیا میں جو اِک اسم رہا باعثِ تسکیں
محشر میں کرے گا وہ مری پشت پناہی
امکان میں مہکے کوئی تعجیل کی صورت
احساس تو کب سے ہے ترے شہر کا راہی
بخشی ہے مجھے اپنی ثنا گوئی کی نعمت
بے جا تو نہیں ہے یہ مری طُرفہ مباہی
معمول ترے پا گئے اسنادِ اوامر
متروک ہُوئے تا بہ ابد درسِ نواہی
جب حشر میں برسے گا ترا ابرِ شفاعت
دُھل جائے گی یکلخت مری فردِ سیاہی
رہنے دیں مرے شوق کو بس بحرِ ثنا میں
مَر جاتی ہے لمحوں میں، جو بے آب ہو ماہی
ہم ایسے گنہگار نہیں بھُولنے والے
رکھے گی نگاہوں میں تری فیض نگاہی
آمد نے تری بخشے ہیں ایقان کے منظر
انسان تو تھا جیسے کوئی حرفِ فکاہی
اُس چارہ گرِ شافعِ محشر کی بدولت
مقصودؔ نہیں ہوں گے کبھی نذرِ تباہی