خاکِ نعلین ہوئی سرمہ میری آنکھوں کا
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا”
میں نے فردوس کے در اپنے پہ کھلتے دیکھے
مدحتِ آقا میں جب ہاتھ قلم تک پہنچا
کہکشاں چاند ستارے ہیں تیری راہ کی دھول
روند کر اوجِ ثریا تو ارم تک پہنچا
بات گو میرے گناہوں سے چلی تھی ساجد
ذکر پر خواجہء طیبہ کے کرم تک پہنچا