خدا ہی جانے ہمیں کیا خبر کہ کب سے ہے
جو اُن کے ذکر کا رشتہ ہمارے لب سے ہے
نہ اُن سے پہلے کوئی تھا نہ اُن کے بعد کوئی
جُدا جہاں میں نبی کا مقام سب سے ہے
ہو دل کا نور، نگاہوں کا نور، علم کا نور
ہر ایک نور کو نسبت مہِ عرب سے ہے
مری پکار درِ سیّدالوریٰ تک ہے
مرا سوال اُسی شاہِ خوش لقب سے ہے
نگاہِ بندہ نوازی تجھے درود و سلام
کہ تیرا لطف زیادہ مری طلب سے ہے
صبیحؔ کو بھی اجازت ہو باریابی کی
حضور آپ سے یہ التماس ادب سے ہے