خلق لائے گی کہاں سے تیرے جیسا یا حسینؑ
مصطفیٰ نانا، علیؑ بابا ہے تیر ا یا حسینؑ
جادۂ عشق نبی پر گامزن ایسے تھا شاہ
دوڑتا جاتا تھا جیسے رستہ یا حسینؑ
راز سارے معرفت کے کھل رہے تھے دم بدم
پا لیا تھا آپ کی آنکھوں نے جلوہ یا حسینؑ
بے خبر تھے دین کے دشمن تیری تعریف سے
اور تو نے کر دیا ہے ان کو تنہا یا حسینؑ
سخت حالات و مصائب سے گذر کر صبر سے
کر دیا ہے دین کو کتنا توانا یا حسینؑ
یہ کجی پیرِ فلک کی تھی کہ قدرِ نا گزیر
امتحان ایسا کبھی دیکھا نہ ہو گا یا حسینؑ