خواب میں ہم نے تجھے رشکِ قمر دیکھ لیا
ڈال کر پردۂ شب ، رُوئے سحر دیکھ لیا
اُس نے دل دیکھ لیا ، اُس نے جگر دیکھ لیا
اپنا اپنا خلش و درد نے گھر دیکھ لیا
شاملِ محفلِ جاناں ہوں یہ تقدیر کہاں
کبھی اُس راہ سے گزرا تو اُدھر دیکھ لیا
دیکھتے اور وہ کیا حالِ مریضِ وحشت
جاں بلب دیکھ لیا ، خاک بسر دیکھ لیا
سعیٔ مشکور رہِ شوق میں یوں ختم ہوئی
تم کو پہچان لیا ، غیر کا گھر دیکھ لیا
عشق کم ہمت و پسپا نظر آیا نہ کہیں
عجز تیرا مگر اے عقلِ بشر دیکھ لیا
اب تک افسانۂ نیرنگِ جہاں سنتے تھے
آ کے باتوں میں تری شعبدہ گر دیکھ لیا
دل کے آنے کو نہ کیوں جان کا جانا سمجھوں
درِ الفت جو کھلا موت نے گھر دیکھ لیا
پاؤں رکھتے تھے زمیں پر جو مغرور ، انہیں
تیری چوکھٹ پہ رگڑتے ہوئے سر دیکھ لیا
نہ ملی سیلِ حوادث سے کہیں مجھ کو پناہ
میں نے ساحل کو بھی بادیدۂ تر دیکھ لیا
جب مجھے اک نگہ ناز سے تسکیں نہ ہوئی
اُس نے پھر مُڑ کے باندازِ دگر دیکھ لیا
کوئی دیکھے یہ تماشائے تکلف کب تک
ہو چکا پردہ بس اب آؤ ادھر دیکھ لیا
مل گئی دادِ غمِ عشق کہ احسنؔ اس نے
سن لیا قصۂ دل ، زخمِ جگر دیکھ لیا