خود سے نفرت ہے مجھے اور بہت ہی نفرت
دن بدن اور بڑھی جاتی ہے جس کی شدت
میری خواہش ہے تواتر سے حوادث ٹوٹیں
سانس لینے کی بھی اس بار نہ پاؤں مہلت
ہر بنِ مُو سے لپکتے ہوئے شعلے نکلیں
غم کی آتش کو عطا ہو کبھی ایسی شدت
کوئی بھی مڑ کے نہ دیکھے نہ کوئی کان دھرے
شدتِ کرب سے چلائے جو میری وحشت
خون بہتا ہی رہے اور نہ پوچھے کوئی
ایک کوڑی کی نہ بچ پائے لہو کی قیمت
میری حسرت ہے کہ اب کوئی مٹائے مجھ کو
اور پوری ہو ہر اک روز یہ میری حسرت
کاٹ دے تارِ تنفس کو مری بے تابی
پھوڑ ڈالے مری آنکھیں کبھی میری حیرت
کوئی قدموں کے تلے یوں مجھے پامال کرے
خاک ہو جائے مری سرو و سمن سی قامت
میں ہوس پوش رہوں عشق کی گردن ماروں
میرے ہاتھوں میں جھلس جائے وفا کی نکہت
میرے اشعار مجھے کاٹ کے رکھ دیں اک دن
میرا انجام سخن میں ہو مقامِ عبرت
کاش میں خاک بسر تیرے مقابل آؤں
اور تو ہنس دے فقط دیکھ کے میری حالت