خوشبو رہی چمن میں نہ وہ رنگ رہ گیا
تربت یہ گل کی، خار کا سرہنگ رہ گیا
ہو لب پہ رام رام، بغل میں چھری رہے
جینے کا اس جہاں میں یہی ڈھنگ رہ گیا
ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر
انساں خلا میں پہنچا تو پاسنگ رہ گیا
گلہائے رنگ رنگ روش در روش ملے
دامن ہی آرزو کا مری تنگ رہ گیا
میں بھی بدل گیا ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ
آئینہ آج دیکھا تو خود ، دنگ رہ گیا